سپاٹا

( سَپاٹا )
{ سَپا + ٹا }
( پراکرت )

تفصیلات


جَھپاٹا  سَپاٹا

پراکرت زبان سے ماخوذ اسم 'جھپاٹا' کا ایک املا 'سپاٹا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٦٥ء سے "دکھنی انوار سہیلی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : سَپاٹے [سَپا + ٹے]
جمع   : سَپاٹے [سَپا + ٹے]
جمع غیر ندائی   : سَپاٹوں [سَپا + ٹوں (و مجہول)]
١ - دوڑ، طرارہ، فراٹا۔
"قلم کے ایک سپاٹے میں لکھتے چلے گیے یہاں تک کہ اس کو تمام کر کے دم لیا۔"      ( ١٩٣٩ء، مطالعہ حافظہ، ١١٥ )
٢ - تیزی۔
"کوئی سپاٹے سے بیٹکھیاں نکال رہا ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، ساقی، کراچی، جولائی، ٥٢ )
٣ - ضرب، مار، زد۔
"میں نے پنڈلی پر چڑھتے ہوئے لال بیگ کو سپاٹا مار کر جھاڑ دیا۔"      ( ١٩٦٦ء، دوہاتھ، ٨٦١ )
  • leap
  • spring
  • bound;  a long run
  • a heat;  a quick or forced march.