کشیدہ خاطری

( کَشِیدَہ خاطِری )
{ کَشی + دَہ + خا + طِری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں 'کشیدن' مصدر سے حالیہ تمام 'کَشِیدَہ' کے بعد اسی زبان سے ماخوذ اسم 'خاطر' بطور لاحقۂ فاعلی لگا کر اس کے بعد 'ی' بطور لاحقہ کیفیت لگانے سے مرکب ہوا اور اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے ١٩٦٧ء کو "عشقِ جہانگیر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ناراضی، خفگی۔
"دنیا دیکھ لے کہ اسفند یار کو سلیم اس وقت صرف ایک ملزم تصور کرتا ہے نیز کشیدہ خاطری بھی ظاہر ہو جائے۔"      ( ١٩٦٧ء، عشق جہانگیر، ٢٠٦ )