بالک

( بالَک )
{ با + لَک }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٦٣٩ء میں غواصی کے 'طوطی نامہ' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بالَکی [با + لَکی]
جمع   : بالَکے [با + لَکے]
جمع غیر ندائی   : بالَکوں [با + لَکوں (واؤ مجہول)]
١ - بچہ، شیر خوار بچہ، کم سن بچہ۔
"ایک روز کسی بالک یا استری کا گلا دبا کر جو کچھ ہتھے چڑھے گا لے کر چمپت ہو جائیں گے۔"      ( ١٩١١ء، پہلا پیار، ٧٦ )
٢ - اولاد، مرید جو اولاد برابر ہوتا ہے۔
"آٹھ برس بعد کوئی بالک ہوا بھی تو ہمارے کس کام کا۔"      ( ١٩٥٢ء، رفیق تنہائی، ٤٦ )
١ - بالک جانے ہیا مانس جانے کیا
بچہ محبت سے اور آدمی کام یا خدمت سے مانوس ہوتا ہے۔ (ماخوذ: جامع اللغات، ٣٩٤:١)
  • child
  • boy