کسا ہوا

( کَسا ہُوا )
{ کَسا + ہُوا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پراکرت زبان سے ماخوذ فعل 'کسنا' کے ماضی مطلق جو بطور صفت بھی مستعمل ہے 'کسا' کے بعد 'ہونا' مصدر سے حالیہ تمام 'ہوا' لانے سے مرکب توصیفی بنا جو اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٩١ء کو "ایافی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : کَسی ہُوئی [کَسی + ہُو + ای]
جمع   : کَسے ہُوئے [کَسے + ہُو + اے]
١ - تنا ہُوا، پھنسا ہوا، چُست۔
"دوسرے دور میں انکا یہ ڈھیلا اسلوب بہت ہی کسا ہوا نظر آتا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، برش قلم، ٨٢ )
٢ - زین سے بندھا ہوا، سواری کے لیے تیار (گھوڑا)۔
"گھوڑا سارے دن کا کسا ہوا، دانے کا وقت، کتوں کا نرغہ، لگا الف ہونے۔"      ( ١٨٩١ء، ایالٰی، ٣٣ )