کسل مند

( کَسْل مَنْد )
{ کَسْل + مَنْد }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم کیفیت 'کسل' کے بعد فارسی لاحقہ صفت لانے سے مرکب توصیفی بنا جو اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٨٤٩ء کو "کلیات ظفر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : کَسْل مَنْدوں [کَسْل + مَن + دوں (و مجہول)]
١ - ناساز، بدمزہ، نادرست، بگاڑ، خرابی (طبیعت یا مزاج کے لیے مستعمل)
"لڑکی کی طبیعت ذرا کسل مند ہے۔"      ( ١٩٦٢ء، معصومہ، ٣٠ )
٢ - تھکا ماندہ۔
"وہ کچھ کسل مند تھے مگر اس کے ساتھ ہی دل میں وہ سرور بھی تھا جو کسی بہت کامیابی پر پیدا ہوتا ہے۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشہ عافیت، ٣٠٠:١ )
٣ - بیمار، علیل۔
"اسی کی طبیعت کسل مند تھی اپنا ہاتھ ماتھے پر رکھا تو وہ گرم تھا۔"      ( ١٩٨٧ء، گلی گلی کہانیاں، ٢٦ )