ترچھی نظر

( تِرْچھی نَظَر )
{ تِر + چھی + نَظَر }

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم صفت 'ترچھی' کے ساتھ عربی زبان سے ماخوذ اسم 'نظر' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧١٤ء میں "دیوان فائز دہلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - نگاہ ناز، نیم نگاہی، معشوقانہ انداز، ناز و انداز یا محبت بھری نگاہ۔
 ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دیگر کو کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو      ( ١٨٥٣ء، دیوان وزیر، ٥ )
٢ - خشم آلود تیکھی یا کڑی نظر، دشمنی یا حسد کی نگاہ۔
"خان صاحب کسی کی ترچھی نظر کے بھی روا دار نہ تھے۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٠٦ )
  • نِگاہِ غَضَب