ترش گوئی

( تُرْش گوئی )
{ تُرْش + گو (و مجہول) + ای }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'ترش' کے ساتھ فارسی مصدر 'گفتن' سے مشتق صیغہ امر 'گو' کے ساتھ 'ئی' بطور لاحقہ کیفیت ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء میں قلمی نسخہ "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : تُرْش گوئِیاں [تُرْش + گو (و مجہول) + اِیاں]
جمع غیر ندائی   : تُرْش گوئِیوں [تُرْس + گو (و مجہول) + اِیوں (و مجہول)]
١ - تلخ گفتاری، ناگوار انداز کلام۔
 تلخی جاں کندن آساں اس ترش گوئی سے ہے جان شیریں سے ہے جی کھٹا ترے رنجور کا      ( ١٨٥٧ء، سحر (نواب علی)، بیاض سحر، ٣٤ )