مستطاب

( مُسْتَطاب )
{ مُس + تَطاب }
( عربی )

تفصیلات


طیب  طَیَّب  مُسْتَطاب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'صفت' ہے اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٢٨ء کو "باغ ارم" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : مُسْتَطابوں [مُس + تَطا + بوں (و مجہول)]
١ - پاک
 ختم تیرے نام پر ہے یہ کتاب اے خداے مستعان و مستطاب      ( ١٨٢٨ء، باغ ارم، ١٢٤ )
٢ - مبارک، سعید (عموماً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت علی کے لیے مستعمل)۔
 یعنی رہتے ہیں رسولِ مستطاب ہے مصور کو قیامت میں عذاب      ( ١٨٩٠ء، مثنوی نظم المواحد، ٥٧ )
٣ - سعد، عمدہ، خوب۔
 سلام ان پر کہ وہ ہوں گے ولی یوم حساب بفضل ایزدی ہو گا مرا دن مستطاب      ( ١٩٩٠ء، زمزمۂ درود، ٧٧ )
٤ - بامزا (نوراللغات)