مستانا

( مَسْتانا )
{ مَس + تا + نا }
( فارسی )

تفصیلات


مَسْت  مَسْتانا

فارسی زبان سے ماخوذ اسم نیز صفت 'مست' کے ساتھ 'انہ' بطور لاحقۂ صفت و تمیز لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : مَسْتانی [مَس + تا + نی]
واحد ندائی   : مَستانے [مَس + تا + نے]
واحد غیر ندائی   : مَسْتانے [مَس + تا + نے]
جمع   : مَسْتانے [مَس + تا + نے]
جمع غیر ندائی   : مَسْتانوں [مَس + تا + نوں (و مجہول)]
١ - سرشار، مست، مخمور۔
 حس معنی کا پرستار یہ مستانہ ہے ہوش کی بات جو کہتا ہے وہ دیوانہ ہے      ( ١٩٣٥ء، حرف ناتمام، ٣ )
٢ - مجذوب، ملنگ، دوریش۔
"یہ لاکھوں بے گھر اور بے در مستانوں اور درویشوں کا دیس تھا۔"      ( ١٩٨٥ء، پنجاب کا مقدمہ، ١٨ )
٣ - مست کر دینے والا، مستی سے بھرا ہوا۔
"اس کام کو . لمحاتی مستانہ ترنگ کہنا زیادہ ناموزوں نہ ہو گا۔"      ( ١٩٩٧ء، صحیفہ، لاہور، ستمبر، ١٧ )
متعلق فعل
١ - مست کی مانند، مست ہو کر، مستانہ وار، دیوانوں کا سا۔
 جنوں کی منزلیں مستانہ طے کر خرد مندوں کو اپنے ساتھ مت لے      ( ١٩٨٧ء، جنگ، کراچی، (رئیس امر وہی)، ١٢ ستمبر، ٣ )