مسالا

( مَسالا )
{ مَسا + لا }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٣٢ء کو "اسلامی فن تعمیر ہندوستان میں" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : مَسالے [مَسا + لے]
جمع   : مَسالے [مَسا + لے]
جمع غیر ندائی   : مَسالے [مَسا + لے]
١ - چونا، گچ اور سرخی وغیرہ جو تعمیر میں کام آئیں۔
"جوڑنے کا مسالا اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ قلعے کی دیواریں ایک ایک کر کے گر رہی تھیں۔"      ( ١٩٦٩ء، ادب کلچر اور مسائل، ٣٤٩ )
٢ - وہ مواد (کتابیں وغیرہ) جس سے تصنیف یا تالیف میں مدد ملے، میٹیریل۔
"بچپن کی کہانیوں میں وہ مسالا موجود ہوتا ہے جن سے .ناول تیار ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، غالب، کراچی، جولائی، ٣٤٣ )
٣ - گوٹا کناری، ٹھپا وغیرہ جن سے کپڑوں کی چمک دمک زیادہ ہو۔
"مسالا. گوٹا کناری کے معنی میں اسی طرح لکھا جائے گا۔"      ( ١٩٩٤ء، نگار، کراچی، ستمبر، ٦٦ )
٤ - وہ چیزیں جو کھانے میں ذائقے کے لیے ڈالی جائیں، مثلاً: لونگ الائچی، ہلدی، دھنیا، نمک و مرچ وغیرہ۔
"مسالا خواہ گرم مسالا کے لوازم میں سے ہو. اسی طرح لکھا جائے گا۔"      ( ١٩٩٤ء، نگار، کراچی، ستمبر، ٦٦ )
٥ - ایک مرکب جسے چکنی ڈلی، الائچی، لونگ وغیرہ سے تیار کرتے اور چونے کے ساتھ پان کے عوض کھاتے ہیں، گٹگا۔ (نوراللغات)
٦ - ایک مرکب جس میں بھنا ہوا ناریل، اور دھنیا وغیرہ شامل ہو اور محرم میں پان کی جگہ کھائیں، محرم کا مسالا، دھنیا۔ (نوراللغات)
٧ - ایک مرکب جس سے بال صاف کرتے ہیں اور جس کو بال دھونے کا مسالا کہتے ہیں۔ (نوراللغات)
٨ - ایک مرکب جو چینی یا شیشے کے ٹوٹے ہوئے برتن جوڑنے کے کام آئے۔
 شکستہ جام ہمیشہ شکستہ ہے ناصح ہزار تونے مسالا لگا کے جوڑ دیا      ( ١٩٢٧ء، شاد عظیم آبادی، میخانۂ الہام، ٤١ )
٩ - کسی چیز کی تیاری کے لوازم اور ضروریات۔
"ملائی جانے والی اشیاء کو اردو میں مسالا کہتے ہیں۔"      ( ١٩٨٨ء، اردو، کراچی، جولائی، تا ستمبر، ٩٠ )
١٠ - [ شاذ ]  نوخیز عورت، پٹاخہ۔ (نوراللغات)
١١ - ایک خاص مسالا جس کا جزو خاص لوہے چون ہوتا ہے۔
"طبلے کی ساخت . دائیں کی کھال کے درمیانی یا مرکزی حصے میں ایک سیاہ ٹکیہ ہوتی ہے جو کہ ایک مسالے سے بنائی جاتی ہے۔"      ( ١٩٧٧ء، نورنگ موسیقی، ٢١٧ )