مستمند

( مُسْتَمَنْد )
{ مُسْ + تَمَنْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ 'صفت نیز اسم' ہے اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : مُسْتَمَنْدان [مُس + تَمَن + دان]
جمع استثنائی   : مُسْتَمَنْدین [مُس + تَمَن + دین]
جمع غیر ندائی   : مُسْتَمَنْدوں [مُس + تَمَن + دوں (و مجہول)]
١ - [ مجازا ]  پہلوان
"بے شک آپ بڑے تنو مند ہیں نامور مستمند ہیں۔"      ( ١٩٠١ء، عشق و عاشقی کا گنجینہ، ٩ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : مُسْتَمَنْدوں [مُس + تَمَن + دوں (و مجہول)]
١ - غمگین، رنجیدہ۔
 زبانِ شکوہ دلِ مستمند کھولے گا نہ ہو معاملہ کسی کا رفت گزشت      ( ١٩٧٥ء، خروشِ خم، ٣١ )
٢ - حاجت مند، ضرورت مند؛ (مجازاً) بے نوا۔
 سجدہ گاہِ مستمندان ہے ترا نقشِ قدم بے نواؤں کا وہی ملجا وہی مامن ہوا      ( ١٩٥٠ء، ترانہ وحشت، ٨ )
٣ - تیار، آمادہ، مستعد۔
 لگی بات عورت کی اسکو پسند کمر باندھ ذودی ہوا مستمند      ( ١٨٥٢ء، قصۂ زن تنبولی (اردو کی منظوم داستانیں، ٥٠٦:١) )
٤ - مستفید، فائدہ مند، فیض یاب۔
"نئی پود اورر جواں نسل جو نئی اِیجادات سے مستمند ہوتی ہے . نئے تصورات کا پرچار کرتی ہے۔"      ( ١٩٦٩ء، سائنس اور فلسفہ کی تحقیق، ٧٥٦ )