بالی[2]

( بالی[2] )
{ با + لی }
( سنسکرت )

تفصیلات


بال  بالی

سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بال' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ تانیث لگنے سے 'بالی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٩٣ء میں آئین اکبری میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : بالِیاں [با + لِیاں]
جمع غیر ندائی   : بالِیوں [با + لِیوں (واؤ مجہول)]
١ - گیہوں جو وغیرہ اناج یا گھاس کا خوشہ(جو روئیں دار ہو)۔
"صحن میں جا بجا گھانس اگ کر اس پر کپڑوں میں چمٹنے والی بالیاں اگ آئی تھیں۔"      ( ١٩٥٢ء، گوری ہو گوری، ١٦٧ )
٢ - کان میں پہننے کا چھوٹا سا حلقہ، دریا۔
"کان میں تھیں بالیاں گونج الجھ گئی پھوار کی اوڑھنی تھی بالی ایسی اٹکی کہ لڑکی کے چھٹائے نہ چھٹی۔"      ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ٥٤ )
٣ - کم عمر لڑکی، نابالغ لڑکی، بچی۔
 معصوم سکینہ سے یہ بولے شہ عالی ہم آئے ہیں ملنے کو ادھر آؤ تو بالی      ( ١٩٤٣ء، قدرت، چند بند، (ماہ نامۂ البرہان، لدھیانہ، فروری، ١٣) )
  • ear or spike of corn;  leaf of a folding door;  leaf of a palm tree with its sheath