طباق سا

( طَباق سا )
{ طَباق + سا }
( فارسی )

تفصیلات


عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'طباق' کے مفرس 'طباق' کے بعد فارسی حرف تشبیہ' ساں' کی تخفیف 'سا' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٤٦ء کو "قصہ مہر افروز و دلبر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : طَباق سی [طَباق + سی]
واحد غیر ندائی   : طَباق سے [طَباق + سے]
جمع   : طَباق سے [طَباق + سے]
١ - طباق جیسا، چوڑا چکلا۔
"پیٹھے سا سر ہے اور کوڑی سے ذانت ہیں اور طباق سا پیٹ ہے۔"      ( ١٧٤٦ء، قصہ مہر افروزو دلبر، ٨٦ )
٢ - طباق کی طرح مکمل گول (عموماً سورج کے لیے مستعمل)۔
"سورج پورا طباق سا نکل آئے گا۔"      ( ١٩٧٦ء، نیلا پتھر، ٦٧ )