فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دست' کے ساتھ مصدر 'برداشتن' سے مشتق صیغہ امر 'بردار' بطور لاحقۂ فاعلی لگانجے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٩٤٣ء سے "سیدہ کی بیٹی" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - لا تعلق، علیحدہ، بے نیاز، (کسی کام سے) ہاتھ اٹھا لینے والا۔
"بیسویں صدی میں سماج اور سماج میں فرد کی آزادی کے تصور اور اہمیت نے فرد کو اپنے آزاد کرانے کی دھن میں بغاوت کا راستہ دکھایا ہے . آزادی کا یہ تصور نہ درست ہے نہ صحت مند، اس لیے آہستہ آہستہ ہمارے افسانہ نگار بھی اس سے دستبردار ہو رہے ہیں۔"
( ١٩٧٠ء، آج کا اردو ادب، ٢٣٣ )