عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصلی معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٧٨٠ء کو "کلیات سودا" میں مستعمل ملتا ہے۔
اُن کو یہ کَد کہ کھینچ لیے جائیں دور تک ہم کو یہ ضد کہ بات جہاں ہے وہاں رہے
( ١٩٤٨ء، آئینہ حیرت، ٧٥ )
٢ - سعی، کوشش؛ فکر۔
"آج ہمارے سنسکرت کی جو یہ کد ہے کہ ہندوستانی زبان کے ہر ہندی یا سنسکرت لفظ کو اصل صحیح ہندی اور صحیح سنسکرت روپ میں دیکھیں۔"
( ١٩٨٧ء، سید سلمان ندوی، ٧٧ )
٣ - دشمنی، کینہ، عداوت، مخالفت، بغض، بیر۔
"ان کی حیات جاوید پر تنقید کا اصل باعث ان کی سرسید سے کد ہے۔"
( ١٩٨٨ء، نگار، کراچی (سالنامہ)، ٢١٤ )
٤ - سختی، تکلیف،رنج۔
تکلیف خمار حد سے گزری اب تک تو ہزار کد سے گزری
( ١٨٩٣ء، دل و جان، ١٨ )