تسمہ باز

( تَسْمَہ باز )
{ تَس + مَہ + باز }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'تسمہ' کے ساتھ 'بازیدن' مصدر سے مشتق صیغہ امر 'باز' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٨١٠ء میں "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : تَسْمَہ بازوں [تَس + مَہ + با + زوں (و مجہول)]
١ - دغا باز، فریبی، جعل ساز، چالاک۔
 نہ رہ مطمئن تسمہ باز فلک سے دغا سے یہ بہتوں کی کھینچے ہے قسمیں      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ٧٩٨ )