تسویل

( تَسْوِیل )
{ تَس + وِیل }
( عربی )

تفصیلات


سول  تَسْوِیل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے ١٩٤٥ء میں "عزیز لکھنوی، صحیفہ ولا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ملمع مازی، فریب، اغواء، اخترا، بنائی ہوئی بات، شیطان کا بہکانا۔
 اگر ہوتا نہ ماخذ دل تراتسویل شیطاں کا نہ کہتا پھر کبھی الہام کو تو فکر انسانی      ( ١٩٤٥ء، عزیز لکھنوی، صحیفہ ولا، ٧٤ )
٢ - کسی بات یا کام کو آراستہ کرنا، سخن آرائی۔
"تسویل جس کے معنی تزیین کے ہیں کہ بری چیز یا برے عمل کو کسی کی نظروں میں اچھا اور مزین کر دے۔"      ( ١٩٧٦ء، معارف قرآن، ٤٣:٨ )