تشاکل

( تَشاکُل )
{ تَشا + کُل }
( عربی )

تفصیلات


شکل  شَکْل  تَشاکُل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے ١٩٤٥ء میں "طبیعیات کی داستان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - آپس میں ہم شکل ہونا، یکسانیت۔
"قربت کے عامل میں پوغری شکل کے تشاکل سے کسی حد تک تعدیل ہوسکتی ہے۔"      ( ١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں، ٢٥١ )
٢ - موزونیت، مناسبت، وہ حسن جو تناسب کی وجہ سے ہو۔
"ان وصفوں میں باضابطگی اور تشاکل پایا جاتا ہے۔"      ( ١٩٤٥ء، طبیعیات کی داستان، ٣٨٨ )
٣ - [ نباتیات ]  مسند گل کی تعداد کا برابر یا متناسب ہونا، موزونیت۔
"تمام پودوں میں ظہری بطنی تشاکل ہوتا ہے۔"      ( ١٩٧٠ء، برائیو فائیٹا، ١٣ )
٤ - [ علم ہندسہ ]  اقلیدس وغیرہ کے کسی مسئلے یا فارمولے کی شکل کا یکساں ہونا۔
"ہر صورت میں ایک ابتدائی مسئلہ ثابت کریں گے جو ان کے تشاکل کے محوروں سے متعلق ہوگا۔"      ( ١٩٣٧ء، علم ہندسہ نظری (ترجمہ)، ١٤٠ )