تشبیب

( تَشْبِیب )
{ تَش + بِیب }
( عربی )

تفصیلات


شبب  تَشْبِیب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے ١٨٦٣ء میں "انشاء بہار بیخزاں" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - جوانی یا عشق کے زمانے کا ذکر کرنا۔
"تشبیب لغت میں جوانی کے دنوں کا مذکور اور عشق کا حال بیان کرنے کو کہتے ہیں۔"      ( ١٨٦٣ء، انشاء بہار بیخزاں، ٦ )
٢ - قصیدے کی تمہید میں عشقیہ مضامین کا بیان۔
"اگر تشبیب میں زیادہ شعر لکھ لاتا تو شکایت کرتے تھے۔"      ( ١٨٨٦ء، حیات سعدی، ١٨٣ )
٣ - [ نباتیات ]  تازہ قوت پانا، (خلیوں کا) نیا ہو جانا، (ازسرنو) قوت پذیری، تجدید قوت۔
"اس حالت میں وہ ایک یا زیادہ ام الخلیہ کے مافیہ کی تشبیب سے تیار ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٦٢ء، مبادی نباتیات، ٧٤٥:٢ )
٤ - جوانی یا بلوغت تک پہنچنے کا عمل۔
"وہ ایک ایسے طریقے سے جسے تشبیب کہتے ہیں. اپنی اصلی جسامت کو پہنچ جاتے ہیں۔"      ( ١٩٦٨ء، بے تخم نباتیات، ٣٨:١ )