مجرائی

( مُجْرائی )
{ مُج + را + ای }
( عربی )

تفصیلات


جری  مُجْرا  مُجْرائی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'مجرا' کے آخر میں 'ہمزہ' زائد لگا کر 'ی' بطور لاحقہ نسبتی لگانے سے اسم 'مجرائی' بنتا ہے۔ اردو زبان میں بھی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠٢ء کو "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - وہ شخص جو آقا یا خداوندان نعمت کو آداب بجا لاتا ہو، مجرا بجا لانے والا، سلام کرنے والا، کورنش کنندہ۔
 فلک اس در پہ مجرائی ملک اس در کے شیدائی یہ شان غوث اعظم ہے پایا غوث اعظم کا      ( ١٩٢٧ء، معراج سخن، ٨٨ )
٢ - وظیفہ خوار جسے صرف سلام کرنے یا حاضر خدمت ہونے کی تنخواہ ملے، منصب دار، درباری نیز دربار میں بازیاب ہونے والا، وہ خاص خاص امراء جنہیں بادشاہ کے استقبال اور سلام کا منصب حاصل ہو، امتیازی۔
 دیکھنا سرکار میں کیا محفل آرائی ہے آج عیش و عشرت ہم نشیں ہیں عید مجرائی ہے آج      ( ١٩١٥ء، جان سخن، ٢٣٩ )
٣ - منہائی، کٹوتی، کمی۔
"میرا اس وقت آنے میں سخت نقصان ہے تنخواہ کی مجرائی الگ۔"      ( ١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٣٩٩ )
٤ - مرثیے کا سلام یا مجرا کہنے یا پڑھنے والا شاعر، وہ شاعر جو سلام نظم میں کہے، مرثیہ خواں۔
 مجرائی جبکہ خاتمۂ پنجتن ہوا تڑپی بتول ایسی کہ ٹکڑے کفن ہوا      ( ١٨٧٥ء، دبیر )
٥ - حاضری، باریابی۔
"حرف حرف سے افسوس جدائی اور اشتیاق مجرائی ٹپکتا ہے۔"      ( ١٨٨٣ء، دربار اکبری، ٤٥١ )
٦ - گھاٹ، جمع یا لگان (ماخوذ: فرہنگ آصفیہ)
٧ - الاؤنس۔ (اسٹین گاس)