مجرئی

( مُجْرَئی )
{ مُج + رَئی }
( عربی )

تفصیلات


جری  مُجْرا  مُجْرَئی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم 'مجرا' کے آخر میں ہمزہ زائد لگا کر 'ی' بطور لاحقہ صفت لگانے سے اسم اور صفت بنتا ہے۔ اردو زبان میں یہ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٣٨ء کو "مثنوی گلزار نسیم" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - وہ ناچنے گانے والا | والی جو بیٹھ کر گائے؛ (محفل میں) ناچنے گانے والا | والی نرتکی۔
"ہیرا بائی. بیش تر مجرئی، میرا مطلب ہے بیٹھ کر گاتی تھی۔"      ( ١٩٩٠ء، آب گم، ٢٥٣ )
٢ - وہ شاعر جو نظم میں سلام کہے؛ مرثیے کا سلام پڑھنے والا، مرثیشہ خواں۔
 اے مجرئی جب ماہ محرم نظر آیا عالم میں عجب رنج کا عالم نظر آیا      ( ١٩١٩ء، گلزار بادشاہ، قادر بادشاہ، ٦٤ )
٣ - سلاطین یا امراء کو سلام کرنے والا، کورنش بجا لانے والا۔
"١٣مئی ١٨٥٧ء روز شنبہ کو بادشاہ دیوان عالم میں آئے اور مجرئی مجرا بجا لائے۔"      ( ١٩٠٣ء، چراغ دہلی، ٦٩ )
٤ - وہ لوگ جو صرف سلام کرنے کی تنخواہ پاتے ہیں، منصب دار، درباری۔
"اور جو ابھی بچے تھے اور ان کے باپ مر گیے تھے، ان کی جگہ ان کے غلام مجرئی کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔"      ( ١٩٦٩ء، تاریخ فیروز شاہی (سید معین الحق)، ١٢٥ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - [ ریاضی ]  منہائی، کٹوتی۔
"وہ آپ فکر نہ کریں اگر گھوڑی ہاتھ آگئی تو ہماری ان کی مجرئی محسوبی ہوتی رہتی ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، ابو الفضل صدیقی، ترنگ، ٧٦ )