مجمع البحرین

( مَجْمَعُ الْبَحْرین )
{ مَج + مَعُل (ا غیر ملفوظ) + بَح (فتحہ ب مجہول) + رین (ی لین) }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'مجمع' کے آخر پر 'ال' بطور حرف تخصیص لگا کر عربی زبان سے ماخوذ اسم 'بحر' کے ساتھ 'ین' بطور لاحقہ تشنیث لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٧٥ء کو "دیوان زادہ حاتم"میں مستعمل ہوا۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - وہ جگہ جہاں دو دریا یا سمندر ملیں، دو دریاؤں کا ملاپ، سنگم۔
"سنسکرتی تعلیمات کی تاریخ میں شنکر کا کردار حیات ایک عظیم مجمع البحرین (سنگم) کی حیثیت رکھتا ہے۔"      ( ١٩٦٤ء، تمدن ہند پر اسلامی اثرات، ١٦٦ )
٢ - وہ مقام جہاں حضرت موسٰی اور حضرت خضر کی ملاقات ہوئی تھی، بعض کے نزدیک حضرت موسٰی اور حضرت خضر کی ملاقات ہی دو دریاؤں کا ملنا تھا۔
"حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنے رفیق کو یہ بتا دیا کہ مجھے مجمع البحرین کی اس جگہ پہنچنا ہے جہاں کے لیے اللہ تعالٰی کا حکم ہوا ہے۔"      ( ١٩٧٢ء، معارف القرآن، ٥٩٧:٥ )
٣ - دو یا متعدد علوم کا عالم، مختلف اوصاف سے متصف۔
"آرنلڈ جیسا مجمع البحرین استاد بھی میسر آگیا جس نے ان کے اندر تحقیق و تنقید کا مذاق پیدا کیا۔"      ( ١٩٨٧ء، عروج اقبال، ٤٩ )
٤ - [ تصوف ]  یہ عبارت ہے قاب قوسین سے کہ دونوں بحروجود و جوب اور امکان کے اس میں مجتمع ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ وہ عبارت ہے جمع وجود سے بااعتبار اجتماع اسما الٰہیہ اور حقائق کونیہ کے۔ (مصباح التعرف)