سر پر

( سَر پَر )
{ سَر + پَر }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے ساتھ سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'پر' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٧٥ء کو "نوطرز مرصع، تحسین" میں مستعمل ملتا ہے۔

متعلق فعل
١ - کھوپڑی پر؛ (مجازاً) نزدیک، قریب تر، پاس، بالکل قریب۔
"سندھیا اپنی رعایا کے آدمی لیکر گوالیار کی باغی فوج کے سر پر آموجود ہوا۔"      ( ١٩٣٥ء، خطبات گارساں دتاسی (ترجمہ)، ٢٢٧ )
٢ - جان پر، ذات پر۔
 نہ پوچھ دہر کی کس کس جفا کو سر پر پہ سہا نہ پوچھ دہر کی کس کس بلا کو پیار کیا      ( ١٩٥٨ء، تار پیراہن، ٢٩ )
٣ - ذمے
 نہ خلوت نہ جلوت نہ بولے نہ چالے بھلی سر پہ تہمت رکھی واہ وا جی      ( ١٨١٨ء، اظفری، دیوان، ٥٩ )
٤ - نگرانی، سر پرستی یا خبر گیری کے لیے۔
 میں دوسروں سے کیوں کہوں جب ان کے سر پر آپ ہیں ہے دوسرا پھر دوسرا، اور آپ ان کے باپ ہیں      ( ١٩١٦ء، انشائے بشیر، ١١٢ )