پاپوش

( پاپوش )
{ پا + پوش (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'با' کے ساتھ فارسی مصدر 'پوشیدن' سے مشتق صیغۂ امر 'پوش' بطور لاحقۂ فاعلی لگایا گیا ہے۔ اردو زبان میں فارسی سے داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٠٧ء میں آرائش محفل میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - جوتی، جوتا۔
 سر رکھ دیا سورج نے ترے پاؤں کے اوپر قربان زرافشانی پاپوش ہوئی دھوپ      ( ١٩٢٧ء، شاد، میخانہ الہام، ١٣١ )
٢ - اظہار حقارت و استخفاف کے لیے۔
 کس کو مطلب ہے کہ اب ان سے ملاقات کرے ایسے خود غرضوں سے پاپوش مری بات کرے    ( ١٨٦٨ء، واسوخت نواب مرزا (شعلہ جوالہ، ٥٥١:٢) )
٣ - استغنا اور بے نیازی کے اظہار کے موقع پر
"میری پاپوش کو کیا پڑی ہے جو میں کسی کو چڑیل یا بھتنی کہوں۔"    ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ٥٥ )