پابند

( پابَنْد )
{ پا + بَنْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'پا' کے ساتھ فارسی مصدر بستن سے مشتق صیغۂ امر 'بند' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے 'پابند' مرکب توصیفی بنا۔ اردو زبان میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - [ بطور مذکر ]  وہ رسی جس سے گھوڑے کے اگلے یا پچھلے پاؤں باندھے جاتے ہیں، گھوڑے کی پچھاڑی۔ (فرہنگ آنندراج، 853:2)
٢ - [ بطور مؤنث ]  گھوڑے کے اگلے اور پچھلے پاؤں پر پائی جانے والی بھونری۔
"پابند، یہ بھونری دونوں ہاتھ اور پاؤں پر ہوتی ہے۔"      ( ١٨٧٢ء، رسالہ سالوتر، ٢٣:٢ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - پالبتہ، مقید، گرفتار۔
 دام گیسو میں نہ کیوں ہو دل مضطر پابند ہے یہی اس کی سزا اور سزا کونسی ہے      ( ١٩٣٦ء، شعاع مہر، ١٣٨ )
٢ - مطیع، فرماں بردار، ماتحت۔
"پابند بنانا چاہا تو وہ شہر چھوڑ کے بھاگ کھڑا ہوا۔"    ( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ١١١:٣ )
٣ - کسی ایک کا ہو کر رہنے والا، بالعموم طوائف جو کسی ایک آشنا سے متعلق ہو جائے۔
"پھر سنا وہ کسی کی پابند ہے۔"    ( ١٨٨٩ء، سیرکہسار، ١٠:١ )
٤ - قانوناً یا اخلاقاً کسی بات پر قائم، کسی عمل کو مسلسل جاری رکھنے والا
"کسی شہر میں ایک تاجر مالدار - تھا،بڑا پابند وضع"    ( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ٥٥ )
٥ - معمولاً کسی بات پر قائم، عادی۔
"میں صبح کو اٹھ کر حقے کا پابند نہیں۔"    ( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٠:٢ )
٦ - کوئی خاص کام بجا لائے پر متعین، کسی کام کی بجا آوری کا ذمہ دار۔
 بڑھتے ہیں صفیں توڑ کے عباس خردمند کیا جنگ کریں مشک بچانے کے ہیں پابند      ( ١٨٩١ء، تعثق، براہین غم، ١١٩ )