فعل متعدی
١ - بیٹھنا کا تعدیہ؛ کھڑے ہوئے یا لیٹے ہوئے کو نشست کرانا، کسی کو کولھوں کے بل فرش یا کرسی پر ٹکانا، بیٹھنے کی جگہ دینا، بیٹھنے کے لیے کہنا۔
"اس مریض کو دوزانو بٹھال دینا چاہیے۔"
( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ١١ )
٢ - گرانا، تھکانا، مضمحل کر دینا، بے طاقت بنانا، ہمت پست کر دینا۔
"اس رنج نے جو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا سید صاحب کو بٹھا دیا۔"
( ١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٣٥١ )
٣ - مقرر کرنا، متعین کرنا (دیکھ بھال یا فیصلے وغیرہ کے لئے)
"ایسوسی ایشن نے - ہی اپنی ایک کمیٹی بٹھا دی تھی۔"
( ١٩٤٣ء، تعلیمی خطبات، ١٨٣ )
٤ - کسی جگہ پر رکھنا، موزونیت کے ساتھ رکھنا۔
"عربی فارسی کے لفظ نکال کر ان کی جگہ سنسکرت کے لفظ بٹھا دیے تھے۔"
( ١٩٣٩ء، خطبات عبدالحق، ١٦٧ )
٥ - پیوست کرنا، ٹھیک تاکی ہوئی جگہ پر لگانا۔
چلے میں کھینچ کھینچ قد کو کیا جوں کماں تیر مراد پر نہ بٹھایا نشانے میں
( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ١٢١:١ )
٦ - الفاظ کو نثر یا نظم میں ایسی جگہ رکھنا جہاں وہ اصول فصاحت کے اعتبار سے موزوں ہوں، قافیے یا الفاظ کی بندش کرنا۔
"لفظ سماج انھوں نے اپنی تحریروں میں اتنے پہلوؤں سے بٹھایا کہ رفتہ رفتہ کان اس لفظ سے مانوس ہو گئے۔"
( ١٩٤٧ء، فرحت اللہ بیگ، مضامین، ٤٢:٤ )
٧ - پودے یا درخت لگانا، پیڑ بونا۔
"کون باغبان ایسا ہے کہ زمین وہ تیار کرے درخت وہ بٹھائے - اور جب پودے لہلہانے لگیں تو باغ سے نکالا جانا ہنسی خوشی گوارا کرلے۔"
( ١٩٣٠ء، انشائے ماجد، ١٨٠:٢ )
٨ - راسخ کرنا، ثابت کرنا، ذہن نشیں کر دینا۔
"بچے ہیں مگر ابھی سے رمضان کا احترام ان کے دلوں میں بٹھا دیا گیا ہے۔"
( ١٩٢٧ء، گلدستۂ عید، ٤١ )
٩ - پھوڑے یا آبلے وغیرہ یا کسی اور ابھری ہوئی چیز کو دبانا۔
جی کا اپنے بھید نہ جانو یہ چھالا ہے پتھر کا جو نہ بٹھائے بیٹھا اب تک اور نہ پھوڑے پھاٹا ہے
( ١٩٣٨ء، سریلی بانسری، ١٢٨ )
١٠ - بکھرنے اور پھیلنے سے روک دینا، منتشر ہوتے ہوئے کو جما دینا۔
"وہ بالوں پر ہیئر ٹانک لگانا، محنت سے ان کو بٹھانا۔"
( ١٩٦٦ء، لاجونتی، ٢١ )
١١ - حاکم والی یا ولی عہد بنانا۔
"اس روز شہزادے کو تخت پر بٹھالا۔"
( ١٨٠٢ء، خرد افروز، ٣١٧ )
١٢ - دو ٹکڑوں کو جوڑنے میں اس طرح ملانا کہ سرمو جگہ سے بے جگہ نہ ہوں، چول سے چول ملا دینا، ٹھیک ٹھیک جوڑ دینا۔
"یہ (ہڈی) کو بٹھانے کا طریقہ چاروں قسموں میں مشترک ہے۔"
( ١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ٢٢٨ )
١٣ - گراکر مسمار کرنا، تباہ و برباد کر دینا، غرق کر دینا۔
مل کے بیٹھے تھے دونوں ہم وہ جہاں روتے روتے بٹھا دیا وہ مکاں
( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٢٤٥ )
١٤ - ساکن کرنا، سکونت دینا، ٹھہرانا، بسانا۔
رنج و قلق کے صدمہ و ایذا اٹھائیے دل کو بٹھا کے سینے میں کیا کیا اٹھائیے
( ١٩٠٥ء، داغ (نوراللغات، ٥٦٨:١) )
١٥ - کنوارا رکھنا، شادی نہ کرنا۔
"من سکھی پانچ برس کی تو ہو گئی، کیا پندرہ برس تک اس کو بٹھاؤں گی۔"
( ١٩٢١ء، اولاد کی شادی، ٢ )
١٦ - لڑکی کو سسرال نہ جانے دینا۔
"کسی نے بھی بیٹی کو بٹھایا ہے جب بیٹی کو بیاہ دیا پھر اس کا شوہر مختار ہے۔"
( ١٨٦٦ء، جادۂ تسخیر، ٣٠٨ )
١٧ - علم یا ہنر حاصل کرنے کے لیے کسی درسگاہ میں داخل کرنا۔
"شرارتوں سے عاجز آکر ماں نے لڑکے کو مسجد میں ایک مولوی صاحب کے پاس بٹھا دیا۔"
( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٦٠:١ )
١٨ - سوار کرنا(گاڑی وغیرہ کے ساتھ)
"وہ تو نہیں نہیں کرتے رہے مگر راجہ صاحب ایک نہیں مانے اور موٹر میں بٹھال لیے چلے گئے۔"
( ١٩٦٩ء، افسانہ کر دیا، ١٦ )
١٩ - کھپانا، جذب کر دینا۔
"للو حلوائی سیر بھر آٹے میں سیر بھر گھی بٹھا دیتا ہے۔"
( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٦٨:١ )
٢٠ - [ قمار بازی ] نقدی کے بدلے کسی چیز کو داؤ پر لگا دینا۔
"داؤ آ جائے تو میں گھر تک بٹھا دوں۔"
( ١٨٩٨ء، مخزن المحاورات، ١٤٣ )
٢١ - کسی چیز کو کسی چیز میں نگینے کی طرح جڑ دینا، اس طرح جمانا کہ اندر بیٹھ جائے، برابر یکساں اور ہموار کرنا۔
"کلہاڑی کے دستے کے سوراخ میں بٹھا کر اس میں ایک کیل بٹھائی جاتی ہے۔"
( ١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ١٨٥ )
٢٢ - کام سے لگانا۔
"سو روپے دے میں نے اپنے بھائی کو دوکان پر بٹھایا ہے۔"
( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ٥٦٨:١ )
٢٣ - لوگوں کو جمع کرنا، جیسے : پنچایت بٹھانا، برادری کو بٹھانا، بنچ بٹھانا وغیرہ۔
"ایسوسی ایشن نے ١٩٤ء - سے پہلے ہی اپنی ایک کمیٹی بٹھا دی تھی۔"
( ١٩٤٣ء، تعلیمی خطبات، ذاکر حسین، ١٨٤ )
٢٤ - مشین وغیرہ کے کھلے ہوئے اجزا کو ان کی مقرر جگہ پر رکھ کر فٹ کر دینا۔
"پرزے تو میں نے بھی نکالے مگر ان کو بٹھا نہیں سکا۔"
( ١٩٢٨ء، مضامین فرحت، ١٠٥:١ )
٢٥ - قائم کرنا۔
"تھانے وغیرہ بٹھانے اور امن قائم رکھنے کے ذمہ دار بھی یہی تھے۔"
( ١٩٤٥ء، سفرنامۂ مخلص، دیباچہ، ٩١ )