پاس وفا

( پاسِ وَفا )
{ پا + سے + وَفا }

تفصیلات


مرکب اضافی ہے۔ فارسی سے اسم 'پاس' بطور مضاف اورعربی سے اسم 'وفا' بطور مضاف الیہ ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٨٨٦ء میں "دیوان سخن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - وعدے کا خیال کرنا۔
 ایفائے عہد کا نہ خیال آپ کو ہوا پاس وفائے عاشق شیدا نہ ہو سکا      ( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ٧٤ )