اگر

( اَگَر )
{ اَگَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اردو میں داخل ہوا اور ١٥٨٢ء میں "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف شرط
١ - بشرطیکہ، جو یوں ہوا تو، جب ایسا ہو جائے تو پھر، (عموماً حرف جزا 'تو' سے پہلے)
 اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا      ( ١٨٠١ء، کلیات، میر، ١٤٠ )
٢ - جب، جبکہ، جس وقت کہ، جب کبھی
"اگر اس کا ناشتہ ذرا دیر میں تیار ہوا تو بیوی کے سر آفت آ جائے گی"
٣ - بالفرض، بفرض محال (جب کسی بات کا قیاس یا امکان ظاہر کیا جائے)
 میرے آنے کی تو بندش ہے مگر کیا کریں گے میں اگر یاد آیا      ( ١٩٤٦ء، روحِ سخن، جلیل، ١٣ )
٤ - بالفرض، بفرض محال (جب کسی بات میں شک ہو یا برائی کا پہلو نکلتا ہو)، مترادف : مانا کہ، چلو یونہی سہی۔
 حنائے پائے خزاں بہار اگر ہے بھی دوام کلفت خاطر ہے عیش دنیا کا      ( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ١٤٧ )
٥ - چاہے، خواہ۔
"بعض آدمی . اگر کیسی ہی رنڈی خوبصورت ہو اس کی طرف خواہش نہیں کرتے"      ( ١٨١٠ء، اخوان الصفاء، ١٨ )
٦ - جو کہیں ایسا ہو تو، مبادا (اندیشے اور خوف کے اظہار کے لیے)
 ترکِ الفت بجا سہی ناصح لیکن اس تک اگر یہ بات گئ
٧ - جس صورت میں کہ، در حالیکہ، (دلیل کے طور پر)
"کیوں اے افراسیاب یہ دن یاد نہ تھا، مثل مشہور ہے اگر منتر سانپ کا نہ جانے بل میں کیوں انگلی ڈالے"۔      ( طلسمِ ہوشربا، ١٠٧٨:٦ )
٨ - جو ایسا ہوتا کہ
 اگر ہم روکتے یارو نہ اپنی اشک باری کو جہاں میں تہلکہ، یہ دیکھ کر برسات، پڑ جاتا
٩ - خبردار جو ایسا ہوا
"اگر تمھاری یہ روش ہے تو جنی سے ہاتھ دھو رکھو"۔      ( ١٩٣٣ء، روحانی شادی، پریم چند، ١٩ )