بڑھاوا

( بَڑھاوا )
{ بَڑھا + وا }
( سنسکرت )

تفصیلات


وردھنین  بَڑھانا  بَڑھاوا

سنسکرت کے اصل لفظ 'وردھنین' سے ماخوذ اردو مصدر 'بڑھانا' سے مشتق حاصل مصدر ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٧٢ء میں 'عطر مجموعہ' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بَڑھاوے [بَڑھا + وے]
جمع   : بَڑھاوے [بَڑھا + وے]
جمع غیر ندائی   : بَڑھاووں [بَڑھا + ووں (واؤ مجہول)]
١ - زیادتی، کثرت۔
'لفظوں کے بڑھاوے سے کلام مرتبۂ فصاحت سے گر جاتا تھا۔"      ( ١٨٨٠ء، آب حیات، ٦١ )
٢ - ترغیب، حوصلہ افزائی، کسی کام کے لیے ابھارنے یا ہمت بندھانے کا عمل (بیشتر دنیا کے ساتھ)۔
'زندگی اور حرکت کا ہنگامہ ہر طرف سے آ آ کر بڑھاوے دیتا تھا۔"      ( ١٩٤٣ء، غبارخاطر، ٢٢٥ )
٣ - فریب، دم، جھانسا (عموماً دنیا کے ساتھ)۔
'کسی کی بہو بیٹی کو پھسلا کر بھگا کر بڑھاوے دے کر - اس کی عصمت کو پامال کرتا ہے۔"      ( ١٩١١ء، نشاط عمر، ١٧٣ )
٤ - خود ستائی، خود نمائی۔
'بیٹی والوں نے اپنے بڑھاوے کے لیے اس سے کہہ دیا کہ - سب گہنا تیار ہے۔"      ( ١٨٧٩ء، زینت العروس، ٦٠ )