پٹاخا

( پَٹاخا )
{ پَٹا + خا }

تفصیلات


اردو اسم صوت 'پٹاخ' کے ساتھ 'ا' لگا کر اسم مذکر بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧١٣ء میں 'مخزن نکات" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - چالاک، طرح دار، چنچل، تیز و طراز، شوخ و شنگ، بیچ میں بول اٹھنے والا یا والی۔
'نمکین جان تم ایسی پٹاخا کیوں ہو۔"      ( ١٩٤٢ء، انور، ٣٥٢ )
٢ - فاحشہ، زنِ بدکارہ۔ (نوراللغات، 55:2)
٣ - خوش شکل، نو عمر، نوخیز، چلبلا معشوق، چھبیلا یا چھبیلی۔
'انارکلی میں ایک لڑکی جا رہی تھی اس کی طرف دیکھ کر ایک آدمی نے اپنے دوست سے کہا بالکل پٹاخہ ہے۔"      ( ١٩٤٥ء، تلخ ترش شیریں، ١١٣ )
٤ - خوش آواز۔ (فرہنگِ آصفہ، 500:1)
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پَٹاخے [پَٹا + خے]
جمع   : پَٹاخے [پَٹا + خے]
جمع غیر ندائی   : پَٹاخوں [پَٹا + خوں (و مجہول)]
١ - زور کی آواز دینے والی ایک قسم کی آتش بازی جو گول اور تکونی شکل کی بنائی جاتی ہے تکونی کو تعویذ یا لڑی کا پٹاخا بھی کہتے ہیں۔
 غنچے چٹک رہے ہیں پٹاخوں کی طرح سے شادی ہے کیا چمن میں عروسِ بہار کی    ( ١٩٠٥ء، داغ (نوراللغات، ٥٥:٢) )
٢ - دھماکا، زوردار آواز، پٹاخے کی آواز۔
 مشتبہ تیری دعا کا اثر اے اکبر ہے دزو نشین کے پٹاخے سے مگر بہتر ہے    ( ١٩٢١ء، اکبر، گاندھی نامہ، ٤٣ )
٣ - بندوق کی ٹوپی۔ (فرہنگِ آصفیہ 500:1)
٤ - مختلف رنگوں کے کپڑوں کی تکونی ٹکڑیوں یا ان سے بنے ہوئے مربع خانوں پر مشتمل لباس وغیرہ کہ ہر ٹکڑی کی سلائی پر اور خانوں پر کلابتوں دھنک وغیرہ ٹِکی ہو۔
'رویہ سردئی چادرہ پٹاخے کی گوٹ کا اور رومی ململ کی کمری کا خاصہ جوڑ ہے۔"      ( ١٩١١ء، قصہ مہر افروز، ٥٣ )