پٹخنا

( پَٹَخْنا )
{ پَٹَخ + نا }
( ہندی )

تفصیلات


پٹک  پَٹَخْنا

ہندی میں 'پٹک' سے ماخوذ 'پٹخ' کے ساتھ 'نا' بطور علامتِ مصدر لگانے سے 'پٹخنا' حاصل ہوا۔ اردو میں بطور فعل متعدی اور فعل لازم گاہے بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٩٠٨ء میں 'صبحِ زندگی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - سوجن وغیرہ کا کم ہونا، گومڑے یا پھوڑے وغیرہ کا بیٹھ جانا؛ کلوں یا رخساروں کو بوجہ علالت پچکنا۔
'جراح کی دوا سے اب سوجن پٹخ رہی ہے اور امید ہے کہ تین چار دن میں ورم بالکل اتر جائے۔"      ( ١٩٦٣ء، مہذب اللغات، ٢٧:٣ )
فعل متعدی
١ - زمین پر دے مارنا، پچھاڑنا؛ (بے پروائی سے) پٹکنا، پھینکنا۔
'یہ سن کر ہنسا اور وہیں زمین پر دیگچی پٹخ کر بھاگ گیا۔"      ( ١٩٢٥ء، حکایاتِ لطیفہ، ٦٩:١ )
٢ - پھینک دینا، ڈال دینا، (مجازاً) شادی کر دینا۔
'گھر کا کوڑا بیٹی، جھاڑو دی نکال پھینکا - جس کے سر چاہا چپیک دیا، جہاں جی چاہا پٹخ دیا، ہر حال میں راضی ہر جگہ خوش۔"      ( ١٩٠٨ء،صبحِ زندگی، ٣١ )