پٹھا

( پَٹّھا )
{ پَٹھ + ٹھا }
( سنسکرت )

تفصیلات


پتر+کہ  پَٹّھا

سنسکرت میں اسم 'پتر + کہ' سے ماخوذ 'پٹھا' اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٧٨ء میں "نوابی دربار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پَٹّھے [پَٹھ + ٹھے]
جمع   : پَٹّھے [پَٹھ + ٹھے]
جمع غیر ندائی   : پَٹّھوں [پَٹھ + ٹھوں (و مجہول)]
١ - گوشت سے ملا ہوا زردی مائل سفید رنگ تسمے کی وضع کا تار جس کے وسیلے سے بدن کے اعضا سکڑتے پھیلتے اور کھنچتے ہیں، عُضلہ، (جسم کی) مچھلی، عصب۔
'تمام کام پٹھوں ہی کی صحت پر موقوف ہے۔"      ( ١٩٢٨ء، باقر علی، کاناباتی، ١٧ )
٢ - پاٹھا، جوان، نوجوان۔
'ہجور(حضور) کا ایک گلام (غلام) تھا، اچھا پٹھا ہے۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂِ عافیت، ٢٧٣:١ )
٣ - (سپاہ گری) مضبوط و بہادر سپاہی، پہلوان، پہلوان کا شاگرد۔
'پہلوان اپنے اپنے پٹھوں کے ساتھ دنگل میں پہنچ گئے۔"      ( ١٩٤٤ء، اصطلاحاتِ پیشہ وراں، ٢٢:٨ )
٤ - انسان یا حیوان کا جوان بچہ (مثلاً گھوڑے، شیر، ہرن،کبوتر، الو، مرغ، طوطی یا کالے سانپ کا)
'میں نے دیکھا کہ ایک شیر کا پٹھا ایک غار کے منہ پر بیٹھا ہوا ہے۔"      ( ١٩٤١ء، الف لیلہ و لیلہ، ٣٥٩:٢ )
٥ - (جوار، باجرے، گھیکوار، تمباکو، کھجور وغیرہ کا) لمبا چوڑا پتّا۔
'سہاگہ وغیرہ باریک پیس کر گھیکوار کے پٹھے پر رکھ کر توے پر رکھیں اور مقام کو سینکیں۔"    ( ١٩٣٦ء، شرحِ اسباب (ترجمہ)، ٣٠٩:٢) )
٦ - وہ کیلے وغیرہ کا پتا جسے منہ میں رکھ کر مختلف پرندوں کی سی آوازیں نکالتے ہیں۔"
 بلبلو دھوکا نہ کھانا اپنے ہم آواز کا منہ میں پٹھا رکھ کے ہیں صیاد اکثر بولتے    ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٩٨ )
٧ - (گھاس کا) پتا، پودا، تنکا۔
'شاہزادے نے چند پٹھے گھاس کے ہاتھ میں لیے۔"    ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٤٩٥:٣ )
٨ - آکاس بیل کی قسم کا ایک پودا جو دوسرے درختوں اور پودوں سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے، طفیلی پودا، بندہ، باندا (قاموس الاصلاحات، 443) لاطینی : Loranlhus Longiflora (پلیٹس)
٩ - صَمْغ، لاسا (قاموس الاصلاحات، 860) لاطینی : Viscum attenuatum (پلیٹس)
١٠ - ایک بوٹی، لاطینی : Kydia Calycina یا Kydia fralarna (پلیٹس)۔
١١ - (تلوار کی) دھار کا چوڑا حصہ، پھل، سفینۂِ شمشیر۔
 ازل سے قاتلوں کو نقشِ خوبی سے ہے محرومی کسی تلوار کے پٹھے پر اتو ہو نہیں سکتا      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ٤٣ )
١٢ - سر کے بال جو ادھر ادھر چھوٹے رہتے ہیں، پٹا، کاکل۔
 آشیاں پورے بناتے نہ طیور سرمجنوں پر جو پٹھے ہوتے      ( ١٩٠٥ء، داغ، یادگارِ داغ، ١٨٢ )
١٣ - کالر، پٹا۔
'لمبی پتلی گردن میں سفید چمکتا ہوا خوب کلف دار اکہرا سخت پٹھا۔"      ( ١٩٢٨ء، پسِ پردہ، ٢٧ )
١٤ - گوکھرو وغیرہ کی توئی یا ساسن لیٹ وغیرہ کی چوڑی گوٹ پر بنی ہوئی ہو جسے دوپٹے یا کرتی پر ٹانکتے ہیں۔
'تین گز سرخ گورنٹ پٹھے کے لیے بلکہ چارگز، اس کا عرض کم ہوتا ہے۔"      ( ١٨٩٥ء، حیاتِ صالحہ، ٣٨ )
١٥ - موٹا اور سخت کاغذ یا گتا جو کتاب کی جلد بنانے کے کام آتا ہے نیز موٹے اور سخت کاغذ یا گتے کی بنی ہوئی جلد؛ وہ موٹا کاغذ جو کتاب کی حفاظت کے لیے اس پر چڑھا دیتے ہیں، گتا، کور، ملٹ۔
 وہ نازک ہیں نہ ہوں گے اس کے پرزے ان کے ہاتھوں سے نہیں بے وجہ لکھا ہم نے خط کاغذ کے پٹھے پر      ( ١٩٠٥ء، داغ، یادگارِ داغ، ١٥٠ )
١٦ - لاکھ کی چَوڑی چُوڑی جو چوڑیوں کے بیچ میں یا آگے پیچھے پہنی جاتی ہے۔
'اس کے پٹھے، ترنج کڑے، جہانگیریوں، بندوں کو کھرے نگینوں سے مرصع کیا ہے۔"      ( ١٩٣٠ء، چارچاند، ١٢٣ )
١٧ - قاش، شاخ، پھانک؛ گزک کا پٹھا (فرہنگ آصفیہ، 503:1)