اٹکھیلی

( اَٹْکھیلی )
{ اَٹ + کھِے + لی }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان کے لفظ 'اٹکھیل' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت و تانیث استعمال کی گئی ہے۔ ١٧٥٥ء کو یقین کے دیوان میں استعمال ہوا۔

اسم کیفیت ( مؤنث )
جمع   : اَٹْکھیلِیاں [اَٹ + کھے + لِیاں]
جمع غیر ندائی   : اَٹْکھیلِیوں [اَٹ + کھے + لِیوں (و مجہول)]
١ - اٹھلائی ہوئی چال، (مجازاً) شوخی، شرارت، ناز و انداز۔
 کچھ ہوا اٹکھیلیوں سے اس کی ایسا خندہ زن ہنستے ہنستے آنکھ میں شبنم کا آنسو آ گیا      ( ١٩٠٦ء، کلام نیرنگ، ٢٤ )
١ - اَٹکھیلیوں سے چلنا
اترا کر چلنا، اٹھلانا، ناز و انداز دکھانا۔ جو باغ تھا کل پھولوں سے بھرا اٹکھیلیوں سے چلتی تھی صبا اب سنبل و گل کا ذکر تو کیا خاک اڑتی ہے اس جا کوئی نہیں      ( ١٩٥١ء، آرزو، ساز حیات، ٢٤ )
٢ - اَٹکھیلی سے چلنا
ناز و ادا سے چلنا، اترانا۔ چل نہیں سکے گا ہرگز تیری اٹکھیلی کی چال پاءوں میں موچ آئے گی کبک ایسی ٹھوکر کھائے گا      ( ١٨٤٦ء، آتش، کلیات، ٣٧ )
  • playfulness