عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں 'قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : بَشارَتوں [بَشا + رَتوں (واؤ مجہول)]
١ - مژدہ، خوش خبری۔
ہونے کو ہے اب نسل ہی صیاد کی غارت اے مرغ گرفتار مبارک یہ بشارت
( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٦٩ )
٢ - خواب، نیم خوابی، مراقبے، الہام یا وحی کے ذریعے غیبی ہدایت یا اشارہ وغیرہ۔
'ہمیں درگاہ شریف میں رات کو بشارت ہوئی ہے کہ عنقریب حضور انور کوئی بہت بڑی مسرت حاصل ہونے والی ہے۔"
( ١٩٣٥ء، بہادر شاہ کا روزنامچہ، ٦١ )
٣ - "آنحضرت صلعم کی رسالت اور بعثت سے متعلق کتب آسمانی اور انبیائے سلف کی پیش گوئی۔"
'چھ بشارتیں عہد عتیق سے اور تین بشارتیں عہد جدید سے آنحضرت صلعم کی نسبت بیان کی ہیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام نے ان کی بشارت دی ہے۔"
( ١٩٣٨ء، حالات سرسید، ١٠١ )
٤ - [ قرآن ] وعدہ، مژدۂ نجات۔
'یہ وہ آیتیں ہیں جن میں اہل جنت کو خلود ابدی کی قطعی بشارت سنائی گئی ہے۔"
( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبی، ٨١٥:٤ )
good news
glad tidings
joyful annunciation made to one in sleep or in a vision by some saint; happy dream or vision; divine inspiration