تالیف

( تالِیْف )
{ تا + لِیْف }
( عربی )

تفصیلات


الف  تالِیْف

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل مہموزالفاء سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٧١ء کو 'ہشت بہشت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ایک چیز کا دوسری چیز سے رابطہ، چند چیزوں کا اختلاط، میل، پیوندکاری۔
'ان دونوں میں تالیف و ترکیب سے کوئی تیسری صورت پیدا ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، رسالہ نبض، ٩ )
٢ - ترتیب دینے کا کام، مختلف مضامین (نظم و نثر) چن کر ترتیب دینے کا عمل، جمع کرنے کا کام۔
'تالیف کتاب کو استنباط انتخاب اخبار ضروری ہے۔"      ( ١٨٠٩ء، مراۃ گیتی نما، ٥٣ )
٣ - تالیف کردہ شدہ، مؤلفہ، مصنفہ (کتاب وغیرہ)۔
'اس تالیف میں جو محنت و مشقت انھوں نے اٹھائی وہ بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٣٦ )
٤ - الفت و محبت، دوستی، دل جوئی۔
'اگر اس تالیف کا ظہور بخوشی خاطر ہو تو محبت ہے اور اگر جبر و اکراہ سے ہو تو عدالت ہے۔"      ( ١٩٠٩ء، فلسفۂ ازدواج، ٥ )