تاننا

( تانْنا )
{ تان + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے لفظ 'تانیا + تِ' سے ماخوذ ہے اردو میں فعل متعدی کے طور پر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٧٩٨ء کو "دیوان بیان" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - سر سے پانو تک خود کو کسی کپڑے یا چادر وغیرہ سے ڈھانک لینا۔
 تھکے ماندے دن بھر کے تھے ہو رہے دوپٹے لیے تان اور سو رہے    ( ١٩١٠ء، آزاد، نظم آزاد، ١٤٢ )
٢ - لمبے چوڑے کپڑے کو سر پر تان دینا یا قنات کے طور پر کھینچ کر لگانا؛ پھیلانا؛ بڑھانا۔ (نوراللغات)
٣ - کسنا، جکڑنا، جھول دور کرنا۔ (نوراللغات)
٤ - [ عوام ]  قید کر دینا؛ میعاد کر دینا۔
'دو برس کو تان دیا۔"      ( ١٨٩٨ء، فرہنگ آصفیہ۔ )
٥ - [ عوام ]  مقدمہ دائر کرنا۔ (نوراللغات)
٦ - کسی آلہ حرب کو ضرب لگانے کے لیے کسی کی طرف بلند کرنا، کسی چیز کو وار کرنے کے لیے اٹھانا۔
'کمبخت نے ڈنڈا تان تان کر مجھے ادھ موا کر ڈالا۔"      ( ١٩٠٩ء، خوبصورت بلا، ١٠١ )
٧ - (چادر، پردہ وغیرہ) پکڑے رہنا، پھیلائے رہنا۔
'اسے رقاصہ کا وہ گھونگٹ نہ سمجھیے، جس کے کسی حصے کو نازک ہاتھ کی دو حنائی انگلیاں - رخسار پر تانے رکھتی ہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، ریاض خیرآبادی، نثر، ٧٥ )
٨ - فضا پر جال بنانا (جیسے مکڑی کا جال تاننا)۔
'مکڑی پھر نئے سرے سے اس کے تاننے میں لگ جاتی ہے۔"      ( ١٩٥٤ء، حیوانات قرآنی، ١٢١ )
٩ - اکسا دینا، اشتعال دلانا۔
'اس نے ہزار تانا مگر نواب صاحب کے حواس درست نہ تھے۔"      ( ١٩١٤ء، اسرار دربار حرام پور، ٥٣:٢ )
١٠ - لٹکانا۔
'حضرت عائشہ نے ایک پردہ رنگین اور نقش دار تانا تھا۔"      ( ١٨٧٣ء، ترجمہ مطلع العجائب، ٩١ )