تاویل

( تاوِیْل )
{ تا + وِیْل }
( عربی )

تفصیلات


اول  تاوِیْل

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل مہموز الفاء سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو 'سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : تاوِیْلیں [تا + وی + لیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : تاوِیْلوں [تا + وی + لوں (و مجہول)]
١ - شرح، تفسیر، پوشیدہ معنوں کی توضیح۔
 عسٰی ان تکر ھوا شیئاً کی تاویل سمجھاتے یوں ہیں قرآن کے اشارات      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٦٣٢ )
٢ - کسی بات کو اصل کے خلاف دوسری طرح بیان کرنا، زیربحث عبارت کا مطلب دوسرے انداز سے نکالنا، من مانے معنی قائم کرنا، معنی پہنانا۔
 اس ستم گر کو ستم گر کہتے نہیں بنتا سعی تاویل خیالات چلی جاتی ہے      ( ١٩٥٠ء، کلیات حسرت، ٣٤ )
٣ - خواب کی تعبیر، خواب کا مطلب جو قیاس کی بنا پر نکالا جائے۔
'دوسری وہ رویا ہیں جو بعینہ واقعہ اور حقیقت ہیں اور اسی لیے آنحضرتۖ نے ان کو بیان کرتے وقت ان کی تاویل و تشریح نہیں کی۔"      ( ١٩٣٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٣٣٧:٣ )
٤ - حیلہ، بچاؤ کی راہ۔
'اس کی تاویل یعنی ایک قسم کا یہ بہانہ کیا جاتا ہے کہ ہم فلاں بزرگ کے مزار پر فاتحہ پڑھنے گئے تھے اور جاتے ہیں۔"    ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ١٤ )
٥ - عذر بے جا، بچاؤ کی دلیل۔ (فرہنگ آصفیہ)