تاکید

( تاکِیْد )
{ تا + کِیْد }
( عربی )

تفصیلات


اکد  تاکِیْد

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل مہموزالفا سے مصدر ہے اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو 'سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - ضد، اصرار، ہٹ۔
 ہم پہ تاکید یہ ہوتی ہے کہ قاتل نہ کہو اپنی چتون کی خبر ہی نہیں قاتل تجکو      ( ١٩١٥ء، جان سخن، ١٠٧ )
٢ - تقاضا، کوشش؛ بار بار کہنے یا زور دینے کا عمل۔
'شریعت کا پابند ہے اور نماز کی بابت بڑی تاکید کرتا ہے۔"      ( ١٩٥٨ء، ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی ایک جھلک، ٢٠٩ )
٣ - شدید ممانعت۔
 نامہ بر سے ہے یہ نفرت کہ ہے ان کی تاکید کوئی طائر سر دیوار نہ آنے پائے      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ٤٥٣:٣ )