بقعہ

( بُقْعَہ )
{ بُق + عَہ }
( عربی )

تفصیلات


بقع  بُقْعَہ

اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو میں مستعمل ہے۔ ١٨٠٥ء میں "جامع الاخلاق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بُقْعے [بُق + عے]
جمع   : بُقْعے [بُق + عے]
جمع غیر ندائی   : بُقْعوں [بُق + عوں (واؤ مجہول)]
١ - جگہ، زمین کا وہ ٹکڑا جو اور ٹکڑوں سے ممتاز ہو، قطعۂ ارض۔
'موش نے کہا - یہ بقعہ وطن اصلی میرا نہیں ہے۔"      ( ١٨٣٥ء، بستان حکمت، ٢٠٨ )
٢ - گھر، مکان۔
'بڑا کمرہ بجلی کی روشنی سے بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔"      ( ١٩٣٦ء، ستونتی، ٥ )
٣ - خانقاہ، مندر، کوئی متبرک مقام۔
'اس موقف کو بقعے کے درمیان جو مقام صاحب شریعت کا ہے مقرر فرمایا تا اس مقام کا دیکھنا صاحب شرع کی - زیادہ محبت و تعظیم کرنے کا سبب ہو۔"      ( ١٨٠٥ء، جامع الاخلاق، ٢٦٣ )
٤ - [ امراض چشم ]  داغ، دھبا (جو آنکھ کے ڈھیلے میں ہو)۔
'اگر یہ لیفی نربی ساخت - دبیر ہو تو اس کو بقعہ - کہتے ہیں۔"      ( ١٩٦٨ء، عطاء اللہ بٹ، کتاب العین، ٣١٩ )