بقا

( بَقا )
{ بَقا }
( عربی )

تفصیلات


بقی  بَقا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی معنی اور اصلی حالت میں ہی اردو میں مستعمل ہے۔ ١٦١١ء میں 'قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - زندگی، وجود، فنا کی ضد۔
 حیران ہے کیوں راز بقا مجھ سے پوچھ میں زندہ جاوید ہوں آ مجھ سے پوچھ      ( ١٩٣٣ء، ترانہ، یاس، ١٧ )
٢ - پائداری، ہمیشگی۔
'کتنے اعمال ایسے ہیں جنھیں بقا ہو۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٩٢ )
٣ - [ تصوف ]  یہ ایک مقام ہے سالک کے لیے جہاں پہنچ کر وہ حق کو موجود اور عالم کو معدوم دیکھتا ہے اور کوئی شے اس کو رویت حق تعالٰی سے نہیں روک سکتی۔
'فنا و محویت سے نکال کر بقا و صحو کی طرف لاتے ہیں۔"      ( ١٨٨٤ء، تذکرۂ غوثیہ، ١٥٧ )
  • remaining;  duration;  eternity;  immortality