تبرک

( تَبَرُّک )
{ تَبَر + رُک }
( عربی )

تفصیلات


برک  تَبَرُّک

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعل سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں ١٦٨٢ء کو 'رضوان شاہ و روح افزا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : تَبَرُّکات [تَبَر + رُکات]
جمع غیر ندائی   : تَبَرُّکوں [تَبَر + رُکوں (و مجہول)]
١ - وہ چیز جس میں برکت ہونے کا اعتقاد ہو، خیر و برکت کی چیز۔
'سجادہ نشین دربار نے تسبیح اور تبرک پیش کیا۔"      ( ١٩٠٧ء، مخزن، فروری، ٢٤ )
٢ - تحفہ، بزرگوں کا عطیہ۔
'غلام کی سب آرزو پوری ہوئی پھر تبرک کی تمنا ہے۔"      ( ١٨٦١ء، فسانۂ عبرت، ٦٠ )
٣ - کسی بزرگ یا پیشوائے دین کی فاتحہ کی چیز، پرشاد۔
'درگاہ شاہ بو علی قلندر واقع پانی پت کے خدام نے تبرک پیش کیا۔"      ( ١٩٣٠ء، بہادر شاہ کا روزنامچہ، ١٨ )
٤ - [ مجازا ]  'ایسی نایاب و مبارک چیز جو عنقریب فنا ہو جانے والی ہو۔"
'جیسے عربی و فارسی رفتہ رفتہ تبرک ہو گئی اسی طرح اردو کو بھی انگریزی کی عملداری نے اسی رستے پر ڈال دیا تھا جو عدم کو جاتا ہے۔"      ( ١٩٧٢ء، نکتۂ راز، ٣٠ )