بگلا

( بَگْلا )
{ بَگ + لا }
( سنسکرت )

تفصیلات


وکوٹ  بَگْلا

سنسکرت میں اصل لفظ 'وکوٹ' سے ماخوذ اردو زبان میں 'بگلا' مستعمل ہے۔ اردو میں بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ملتا ہے۔ ١٧٣٧ء میں 'طالب و موہنی' میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بَگْلے [بَگ + لے]
جمع   : بَگْلے [بَگ + لے]
جمع غیر ندائی   : بَگْلوں [بَگ + لوں (واؤ مجہول)]
١ - ایک آبی پرند جس کا رنگ نہایت سفید اور گردن لمبی ہوتی ہے اکثر پانی کے کنارے رہتا اور مچھلیاں پکڑ کر کھاتا ہے۔
'اور پرندوں سے جن سے تم گھن کرو اور جن کو نہ کھاؤ اس لیے کہ وہ مکروہ ہیں، یہ ہیں، - لق لق اور بگلا۔"      ( ١٩٥٥ء، حیوانات قرانی، ١٦٢ )
٢ - ایک قسم کا پھول جس کا رنگ سفید ہوتا ہے۔
 بگلے وحدن بان کی کچھ بات نرالی ہے گل چاندنی کہتی ہے 'میری ہی اجالی ہے'      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٢٣٨:٢ )
٣ - ایک قسم کی کشتی یا بحری جہاز جو دور سے بگلے کی شکل کا نظر آتا ہے۔
'بگلوں (قسم جہاز) پر کم سے کم دو دو سو عرب سوار ہو کر بو شہر پہنچے۔"      ( ١٨٩٠ء، 'رسالہ حسن' ٣، ١٣:٦ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بَگْلے [بَگ + لے]
جمع   : بَگْلے [بَگ + لے]
تفضیلی حالت   : بَگْلوں [بَگ + لوں (واؤ مجہول)]
١ - نہایت سفید، بہت اجلا۔
'ہاتھ میں تسبیح، بگلا ڈاڑھی، بگلا سر، جیسے حضرت جبرئیل بیٹھے ہوں۔"      ( ١٩٦٠ء، رادھا اور رنگ محل، ٧٨ )