بلاغت

( بَلاغَت )
{ بَلا + غَت }
( عربی )

تفصیلات


بلغ  بَلاغ  بَلاغَت

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی اردو میں مستعمل ہے۔ ١٦٣٨ء میں 'چندر بدن و مہیار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : بَلاغَتیں [بَلا + غَتیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : بَلاغَتوں [بَلا + غَتوں (واؤ مجہول)]
١ - کلام فصیح کی مقتضائے حال سے مطابقت، کلام فصیح جو اطناب و ایجاز سے خالی ہو(مجازاً) خوش بیانی، فصاحت۔
 واعظ کی بلاعت بھی بڑی چیز ہے لیکن سچ بات یہ ہے دل میں سمانا بھی ہے اک چیز      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٢:٣ )
٢ - [ ادب ]  وہ علم جو اعلٰی درجہ کی خوش بیانی کے قواعد پر مبنی ہو، معانی بیان اور بدیع پر مبنی علم۔
'یہ جو نصاب تعلیم میں صرف و نحو و لغت اور معانی و بلاغت اور منطق وغیرہ کی کتابیں پاتے ہیں وہ اسی غرض سے داخل نصاب ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٠٣:٢ )
  • eloquence;  rhetoric;  maturity