پرخاش

( پَرْخاش )
{ پَر + خاش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : پَرْخاشیں [پَر + خا + شیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : پَرْخاشوں [پَر + خا + شوں (و مجہول)]
١ - کینہ، عداوت؛ غبار خاطر، تکدر، غلط فہمی۔
"کسی مذہب و ملت سے انہیں خصومت یا پرخاش نہ تھی۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٤٧ )
٢ - لڑائی جھگڑا، فساد، ہنگامہ، جنگ، دنگہ، طوفان، دباؤ
 اپنوں سے آتشی ہے نہ پرخاش غیر سے ہم صلح و جنگ میں نہیں رکھتے ریاسے ربط      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نطیر، ٨٧ )
  • war;  battle;  conflict;  alteration;  quarrel;  misunderstanding;  commotion;  disturbance;  tumult;  violence;  injury;  oppression;  severe;  inquisition