پرزہ

( پُرْزَہ )
{ پُر + زَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ " میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پُرْزے [پُر + زے]
جمع   : پُرْزے [پُر + زے]
جمع غیر ندائی   : پُرْزوں [پُر + زوں (و مجہول)]
١ - کاغذ وغیرہ کا حصہ یا ٹکڑا۔
"ہم تو اپنے بچپن میں دیکھتے تھے کہ لکھے ہوئے کاغذ کا پرزہ زمین میں پڑا ہوتا تو اٹھا کر چوما۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٤٧:٣ )
٢ - کسی گل یا مشین کا کوئی حصہ۔
"اسی بھاپ کی طاقت سے اس مشین کا ہر پرزہ چلتا ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبی، ٤٠٦:٤ )
٣ - 'دھجی' چیتھٹرا، کترن (کپڑے وغیرہ کی)۔
 میں بھی گلچین کی طرح پھول چنا کرتا ہوں کب گربیاں کے پرزے مرے داماں میں نہیں      ( ١٩١٥ء، جان سخن، ٨٥ )
٤ - مختصر خط، رقعہ۔
"ناصر کی ہزاروں منتیں کیں کہ ذرا ساپرزہ ممانی کو لکھ کر ڈال دے، ایک نہ سنی۔"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشاء، ٢٥ )
٥ - [ مجازا ]  چالاک، ہشیار، شرارتی (چلتا، کےساتھ)۔
"میں جانتا ہوں وہ بڑا چلتا پرزہ ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات، ٨١:٢ )
٦ - رونگٹا (پرندوں کے لئے مستعمل)۔
 نہ پر تھا نہ پرزا نہ بازو نہ پا کنھوں نے بھی پوچھا نہ یوں تھا یہ کیا      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠٨٤ )
٧ - شیاف، دوات کا صوف۔ (نوراللغات، 81:2)
٨ - رواں جو ریشمی کپڑے اور پشمینہ کے بہت زیادہ استعمال کے بعد ابھر آتا ہے، (ماخوذ:نوراللغات، 81:2)۔
٩ - ٹکڑا، حصہ۔ ٹیسٹ ٹیوب۔
"اتار بنانے سے پہلے آہن کا امحتان ایک دو پرزوں میں بھر کر کرلیں۔"      ( ١٩٠٣ء، آتشبازی، ٢٤ )
١٠ - [ مجازا ]  نسخئہ طبیب۔
"نسخہ تیار ہو گیا کاغذی پرزاتھا دوا فروش نے پڑھ کر دوشیشیاں دے دیں۔"      ( ١٩١٢ء، سی پارئہ دل، ٨٠:١ )
  • a scrap (com. of paper);  piece
  • bit
  • part
  • component (of);  rag;  frippery;  nap (of cloth);  down (of birds)