پرکالہ

( پَرْکالَہ )
{ پَر + کا + لَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیاتِ ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : پَرْکالے [پَر + کا + لے]
جمع   : پَرْکالے [پَر + کا + لے]
جمع غیر ندائی   : پَرکالوں [پَر + کا + لوں]
١ - ٹکڑا، حصہ، لخت، پارہ
 کوہ سہر مکھ ہو تو اک وار میں دو پرکالے ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا      ( ١٩٠٥ء حدائق بخشش، ٦:١ )
٢ - چنگاری، شرارہ
 شب تاریک میں صد مایہ تابش بن کر محوپرواز ہے پرکالہ آتش بن کر      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ١٣ )
٣ - شیشے کی 'ٹکڑی' شیشے کے وہ ٹکڑے جو کھڑکیوں میں لگائے جاتے ہیں، شیشہ آئینہ۔ (پلیٹس؛فرہنگ آصفیہ، 517:1)
  • a stair
  • ladder
  • steps;  a spark;  a pane of glasses