پروا

( پَرْوا )
{ پَر + وا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - اندیشہ، خوف، ڈر، خطرہ۔
 اس شور میں بشاش کھڑے تھے وہ دلاور پروا نہ تھی مطلق کہ یہ فوج آتی کسی پر      ( ١٨٧٤ء، انیس، فراثی، ١٠٩:١ )
٢ - خواہش، رغبت؛ حاجت، ضرورت، احتیاج۔
"نام و نمود کی پروا آپ کو ہو تو ہو، میری طرف سے تو اطمینان رکھیئے۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٣٢ )
٣ - کسی بات کا لحاظ، خیال، دھیان۔
"وائے بیدردی کسی کو پروا بھی نہیں ہوتی۔"      ( ١٩٣١ء، رسوا، خونی راز )
٤ - تردد، فکر، غم۔
 گر دل دیا ہے اس کو تو اے مصحفی دیا میں وہ نہیں کہ عشق میں پروائے دل کروں      ( ١٨٢٤ء، مصحفی، انتخاب رام پور، ١٤٦ )
  • care
  • concern
  • anxiety
  • vexation;  fear
  • terror;  inclination
  • desire
  • affection
  • concupiscence;  want
  • need;  rest
  • quiet