بلوائی

( بَلْوائی )
{ بَل + وا + ای }
( سنسکرت )

تفصیلات


بلکوپ  بَلْوا  بَلْوائی

سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بلوا' کے آخر پر 'ا' ہونے کی وجہ سے ہمزہ زائد (اسے ہمزہ اتصال بھی کہتے ہیں) لگا کر 'ی' بطور لاحقہ نبست لگنے سے 'بلوائی' بنا اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے ١٩٠٧ء میں "اجتہاد" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بَلْوائِیوں [بَل + وا + اِیوں (و مجہول)]
١ - دنگا فساد کرنے والا، باغی۔
 نکل جائیں گے تکلے کی طرح کسی دن کا بلی بلوائیوں کے      ( ١٩٣١ء، بہارستان؛ ظفر علی خاں، ٣٢٥ )
  • riotous