بلوا

( بَلْوا )
{ بَل + وا }
( سنسکرت )

تفصیلات


بلکوپ  بَلْوا

سنسکرت میں اصل لفظ 'بل کوپ' ہے اردو میں اس سے ماخوذ 'بلوا' مستعمل ہے اور بطور اسم کیفیت ہے ١٧١٨ء میں "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : بَلْوے [بَل + وے]
جمع   : بَلْوے [بَل + وے]
جمع غیر ندائی   : بَلْووں [بَل + ووں (واؤ مجہول)]
١ - فساد، لڑائی جھگڑا۔
 کہیں گانے کی پونچھ پر سر پھٹول کہیں باجا بجنے بجانے پہ بلوا      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خاں، ٧٤٩ )
٢ - ہجوم، ازدحام۔
 ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا میرا حصہ دور کا جلوا      ( ١٩٠٧ء، کلیات اکبر، ٢٦٨:١ )
٣ - شور، غل، غوغا۔
 کہاں کا فاتحہ اور کیسا حلوا پٹاخوں نے مچا رکھا ہے بلوا      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٩٣:٤ )
٤ - بے چینی، شورش، اضطراب۔
 جان و دل پر لشکر آرائی تھی جوش یاس کی مفت اس بلوے میں شبا خون تمنا ہو گیا      ( ١٨٥١ء، مومن، کلیات، ٣٦ )
٥ - بغاوت، عذر، سرکشی۔
"افسروں نے بیگم سے کہا کہ سپاہی بلوے پر آمادہ ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ہم نپولین کے مقابلے میں نہ جائیں گے"      ( ١٩٠٧ء، نپولین اعظم، ٨٣:٥ )
٦ - [ قانون ]  بہت سے آدمیوں کی فساد پر آمادگی اور جھگڑا کرنے کی نیت سے ہجوم میں شرکت۔ (نوراللغات 665:1)