بنجارا

( بَنْجارا )
{ بَن + جا + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


وَنج  بَنْج  بَنْجارا

سنسکرت کے اصل لفظ 'ونج' سے ماخوذ اردو زبان میں 'بنج' مستعمل ہے اس کے ساتھ ہندی زبان سے ماخوذ لاحقۂ صفت مذکر 'ہارا' لگنے سے 'بنجہارا' بنا اور 'ہ' ثقالت کی وجہ سے حذف ہو گئی اور 'بنجارا' مستعمل ہوا۔ ١٧١٩ء میں "جنگ نامہ عالم علی خان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : بَنْجارَن [بَن + جا + رَن]
واحد غیر ندائی   : بَنْجارے [بَن + جا + رے]
جمع   : بَنْجارے [بَن + جا + رے]
جمع غیر ندائی   : بَنْجاروں [بَن + جا + روں (واؤ مجہول)]
١ - غلے کا تاجر، سوداگر، بیوپاری
"اکثر بڑے جتھے اس لئے قائم ہوے تھے کہ بنجارے جو ملک میں پھر کر غلے کی تجارت کرتے تھے، ان کو لوٹ لیا کریں۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ ،٣٣٩:٤ )
٢ - ایک خانہ بدوش قوم جو تجارت یا کسی اور غرض سے ایک مقام سے دوسرے مقام پر سفر کرتی رہتی ہے؛ اس قوم کا ایک فرد۔
"بعض گروہ ایسے بھی موجود ہیں جو نیم وحشی ہیں ان میں ملک ہند کے بنجارے ہیں۔"      ( ١٩١٣ء، تمدن ہند، ٩٢ )
٣ - ایک قسم کا شکاری کتا، (جیسے بنجارے اپنے مال کی حفاظت کے لئے سدھا کر اپنے ساتھ رکھتے ہیں)
"بنجارے . محض بیکار اور اس شکار کو تباہ کرنے والے ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، قطب یار جنگ، شکار، ٣٠٠:٢ )
٤ - ایک قسم کا گیت جس میں اکثر محبوب کی جدائی یا بیوفائی کا شکوہ ہوتا ہے۔
 کوئی جھول کر جھولا بنجارہ گائے کوئی منگا دو کھانڈا گا کر سنائے      ( ١٨٩٣ء، صدق البیان، ١٠٠ )
  • a caste or class who are carriers of grain
  • salt;  a n individual of that class;  a grain merchant